ریاست سوات کا انجینئرنگ کالج پشاور میں پہلا انجینئر سید سراج الدین

 ریاست سوات میں پہلی تعلیمی درسگاہ    ودود یہ اسکول 1923 میں قائم ہوئی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب عصری تعلیم  ناپید  تھی۔ اور سوات میں علم کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔  قیام پاکستان کے بعد 1952 میں جان زیب کالج کا قیام ہوا جس میں انٹرمیڈیٹ تعلیم پانا ریاست سوات میں ممکن ہوا۔ اسی دور میں جب عصری تعلیم کی طرف رغبت نہ ہونے کی برابر تھی چند لوگوں نے اعلی تعلیم حاصل کرکے  ریاست سوات کو متعارف کیا۔ ایسے لوگوں میں سیدو شریف کے ایک نوجوان نے اللہ کے فضل سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور آگے بڑھنے کے  عظم کے بل بوتے پر ریاست کا پہلا الیکٹریکل انجینئر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس نوجوان کا نام سید سراج الدین تھا۔  سید سراج الدین نے 8  جون 1932 کو سیدو شریف سوات میں ایک معتبر  گھرانے سید محمد اکبر کے ہاں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم 1937 میں  ودودیہ اسکول  سے شروع کی۔ جو کہ میٹرک تک جاری رہی۔ سید سراج الدین آرٹس کے طالب علم تھے جب دسویں جماعت کے امتحان میں تین ماہ باقی رہ گئے تو انہوں نے سائنس کا رخ کیا اور 1947 میں میٹرک میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ اس نوجوان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ تاریخ رقم کر رہے ہیں۔   تعلیم کی جستجو اور آگے بڑھنے کی صلاحیت انہوں نے انٹرمیڈیٹ سال اول اور دوم  اسلامیہ کالج پشاور سے کیا۔  سید سراج الدین کا ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں۔  ان کے بھائی سید محمد رحمان اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن  تھے۔ سید سراج الدین نے اپنی تعلیم اسلامیہ کالج میں بی ایس سی میں جاری رکھیں جبکہ 1952 میں الیکٹریکل اور مکینکل شعبوں کی نئی  کلاس انجینئرنگ کالج پشاور میں شروع ہوئی تو سید سراج الدین نے الیکٹریکل کے پہلے بیچ میں داخلہ لیا  جو کہ ریاست سوات کے لیے  باعث فخر تھا اور اس کے ساتھ یہ یقینی تھا کہ یہ شوق ان کو ضرور کسی بڑے مقام تک پہنچائے گی۔ چار سال بعد الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری کا اعزاز حاصل ہوا  اور یوں زندگی کتابوں سے ختم ہو کر عملی میدان میں شروع ہوئی جس میں انجینئر سید سراج الدین کی  تقرری  درگئی جبن پاور سٹیشن ملا کنڈ  میں بحثیث  سب ڈویژنل  انجینئر سوات میں تعینات ہوئی۔ 1962 میں ان کی ازدواجی زندگی کی شروعات

طرح کامیاب رہی۔

 ان کی شادی ریاست  سوات وزیر ملک امیر سید خان کی چھوٹی بیٹی سے ہوئی۔  وزیر صاحب ایک ذہین دانا اور معاملہ فہیم ہونے کے ساتھ مرد شناس انسان تھے۔  وہ والی سوات کے قریب ترین اور  بے داغ کردار کے مالک تھے۔ ان کے بڑے بیٹے عبداللطیف ریاست سوات میں  جنگلات کے مجسٹریٹ رہ چکے ہیں وہ اپنے نام کی طرح لطیف رحم دل اور مہربان انسان تھے۔ وزیر ملک کے دوسرے بیٹے عبدالحمید خان تحصیلدار تھے جوکہ نہایت اچھے اخلاق اور ملنسار انسان ہونے کے ساتھ  خوبصورت وضع قطع کے مالک تھے۔ تیسرے بیٹے عبدالرحمن  صدیم اور چوتھے بیٹے حضرت رحمان واپڈا میں ملازمت کرتے تھے جو کہ اپنے والد اور دونوں بھائیوں کی طرح بہت بہترین انسان ہونے کے ساتھ ساتھ فرض شناس تھے۔ امیر سید کی بڑی بیٹی کی شادی ناسوزی خان سے ہوئی تھی جو کے ملک خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور صوبیدار (بونیر ) ریاست سوات تھے وہ ایک نرم دل اور مہربان انسان تھے۔

 شادی کے بعد سید سراج الدین کا تبادلہ ریاست سوات سے پیشاور ہوا دوران ملازمت انہوں نے لاہور تربیلا سوات اور شانگلہ میں خدمات سرانجام دی ترقی کی مدارج طے کرتے ہوئے سپریٹنڈنٹ انجینئر کے  منصب تک جا پہنچے۔  چیف انجینئر کی پوسٹ پر ترقی پروموشن کمیٹی کے زیرغور، آخری مراحل میں تھی کے  اس دوران تربیلا میں 3 مارچ 1980 کو ان کے دل کا دورہ پڑا اور حرکت قلب بند ہونے پر اس  دارفانی سے ہمیشہ کے لئے کوچ کر گئے۔ انہیں بھی قبرستان بہ موسوم (وزیرانو سراے) میں سپرد خاک کیا گیا۔ پس ماندگان میں ان کے چار بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔ ان کی تمام بیٹیاں سوات کے  بڑی اور باعزت خاندانوں میں شادیاں ہوئیں ہیں۔  ان کے بچے زیادہ تر انجینئرز ہیں ( پاکستان کینیڈا اور سعودی ) میں  اور کچھ کی تعلیم جاری ہے۔

 سید سراج الدین کے بڑے بیٹے سید ظفر علی اور سید اکبر علی   PESCO میں ملازمت کر رہے ہیں جو کہ سلجھے اور مہربان انسان ہیں اور اپنی باپ کی طرح  خوبصورت وضع قطع کے مالک ہیں۔ ان کے تیسرے بیٹے سید فرمان علی جو کہ اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست کرتے ہیں۔ وہ ایک نڈر بہادر انسان ہیں اور سید سراج الدین کا چھوٹا بیٹا انجینئر سید عرفان علی ہے جو کہ ایک عرب ملٹی نیشنل انجینئرنگ کمپنی میں ڈائریکٹر ہیں۔

یہ مضمون انجینئر سید عرفان علی نے تحریر کیا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں