‏ٹائٹل: سوال یہ ہے


تحریر: فاروق خان

یہ بات حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اب تک پاکستان کے کسی بھی منتخب وزیراعظم نے اپنی دور حکومت مکمل نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سیاسی کشیدگی ایک معمول بن گیا ہے۔ دنیائے عالم میں پاکستان کے بارے میں یہ تعاثر ہے کہ پاکستان میں حکومتیں سیاست دان نہیں بلکہ فوج چلاتی ہیں چونکہ 75 سالوں میں زیادہ ادوار حکومت میں فوج کے جرنیل ہی رہے ہیں تو اس بات میں صداقت ہوسکتی ہے کہ حکومتیں تبدیل کرنے میں تیسری قوتوں کا کردار رہا ہے۔

لیکن وزرائے اعظم کی اس فہرست میں زیادہ تر کرپشن کے کیسز اور دیگر سنگین الزامات میں اپنی منصب سے ہٹائے گئے ہیں یا خود استعفے دیئے ہیں۔ اسی فہرست میں ایک نام عمران خان کا بھی ہے جن کے خلاف مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک اس لئے لائی گئی کیونکہ بقول دیگر اپوزیشن جماعتوں کے، وہ مہنگائی کم کرنے میں ناکام رہے اور ان کے پاس مہنگائی ختم کرنے کا اور معیشت سنبھالنے کا بہتر منصوبہ ہے۔

لیکن عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اتنی سادہ نہ تھی۔ عمران خان وزیر اعظم تو نہیں رہے لیکن ایک ایسا بیانیہ عوام کے سامنے لیکر آئے جس نے سیاستدانوں سمیت تمام قوتوں کو پریشان کرکہ رکھ دیا۔ عدم اعتماد کی کامیابی سے پہلے عمران خان نے عوامی جلسے میں ایک خط لہرایا اور کہا کہ اس کی حکومت کے گرانے کے پیچھے امریکی انتظامیہ کا ہاتھ ہے۔ عمران خان کا بیانیہ یہ تھا کہ وہ پہلے سے متوقع روس کے دورے پر روانہ ہوئے اور دورے کے پہلے ہی دن روس نے یوکرین پر چڑھائی کردی۔ عمران خان کے مطابق یہ دورہ ان کا زاتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے تمام عسکری قیادت سے باقاعدہ مشاورت ہوئی اور ان کی رضامندی کے بعد ہی دورہ روس کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ اس اقدام پر امریکہ کو تشویش تھی اور امریکہ نے اپنے سفارتکار ڈانلڈ لو کے زریعے پاکستانی سفیر تک یہ پیغام پہنچایا کہ امریکہ کو عمران خان کے روس دورے پر تحفظات ہے اور اگر عمران خان کو عدم اعتماد کے زریعے نہیں ہٹایا گیا تو پاکستان کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عمران خان کے اس بیانئیے کو عوام میں بہت پزیرائی ملی اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد عمران خان نے ایک کے بعد دیگرے 25 کامیاب جلسے کیئے۔ سوشل میڈیا پر بھی عام عوام کی طرف سے عمران خان کے ساتھ یکجہتی دکھائی گئی، پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، ترکی اور ڈنمارکمیں بھی ریلیاں نکالی گئی۔

حکومتی نمائندوں اور عسکری زرائع کے مطابق جس مراسلے کا عمران خان زکر کررہے ہے اس میں “سازش” لفظ شامل نہیں بلکہ صرف مداخلت ہوئی ہے۔ اس بیان کو بھی عوامی حلقوں نے کافی تنقید کا نشانہ بنایا۔

جس نعرے سے نئی حکومت آئی تھی کہ عمران خان مہنگائی کے خلاف حکمت عملی بنانے میں ناکام ہوئے ہے اور ان کی اگر حکومت آگئی تو یہ پاکستان کو مہنگائی کی اس دلدل سے نکالیں گے۔ لیکن حکومت میں آتے ہی دو مہینوں میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 150 سے 209 روپے گیا اور مزید بڑھانے کا عندیہ مفتاع اسماعیل دے چکے ہے۔ چینی کی ایک کلو قیمت میں 20 روپے کا اضافہ ہوا، اسی طرح آٹے کا تھیلہ 1400 روپے تک پہنچ گیا۔ حکومت تبدیل ہونے کے 12 گھنٹے بعد ملک بھر میں 12 سے 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہونے لگی۔ اس کے علاوہ گیس کی قیمت بھی 45 فیصد مہنگی کردی گئی، ڈالر 203 تک پہنچ گیا، موڈیز جو دنیا کے ممالک کی معاشی حالات کی ریٹنگ کرتا ہے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت مثبت سے منفی درجے پر آگئی ہے۔

اس وقت وفاقی حکومت پاکستان کی معاشی حالت ٹھیک کرنے میں مکمل ناکام نظر آرہی ہے اور پاکستان کی دیوالیہ ہونے کے خدشات موجود ہیں لیکن یہاں عوام کچھ سوالات پوچھنے کا حق رکھتی ہیں اور ان کے جوابات بھی دینا لازمی ہے۔

پہلا سوال: اگر سازش نہیں ہوئی تو پی ڈیم ایم حکومت روس کے ساتھ 30 فیصد ڈسکاونٹ پر پٹرول خریدنے کا معاہدہ کیوں نہیں طے کر لیتی؟

دوسرا سوال: اگر متحدہ سمیت دیگر منحرف ارکان نے عمران خان کے خلاف اس لئے ووٹ ڈالا کہ مہنگائی کو قابو کرنے میں تحریک انصاف حکومت ناکام رہی تو کیا یہ لوگ ابھی بھی عوام کے لئے اس حکومت سے دستبردار ہونگیں؟

تیسرا سوال: اگر سازش نہیں ہوئی تھی تو قومی سلامتی کمیٹی کی ہدایت پر امریکی سفارتکار کو بلا کر ڈی مارش کیوں دیا گیا؟

چوتھا سوال: اگر پی ڈی ایم حکومت کو معاشی حالات کا پتہ تھا تو الیکشن سے محض ایک سال پہلے ہی عدم اعتماد کی تحریک کیوں لے کر آئیں؟

پانچواں سوال: حکومت میں آنے کے بعد معیشت پر غور کرنے سے پہلے کابینہ کے نام ای سی ایل سے کیوں نکالے اور ایف آئی افسران کے تبادلے کیوں کروائے گئے؟

ان پانچ سوالات عوام کی زہنوں میں موجود ہیں اور ان کے جوابات پی ڈی ایم حکومت، عسکری قیادت، اور چند صحافیوں کو دینے ہونگیں ورنہ عوام کا اعتماد کبھی بحال نہیں ہوسکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں