قلم والے خاموش کیوں؟

تحریر: فاروق خان
پاکستانی سیاست پچھلے کئی عرصے سے تنازعات کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ دو بڑی سیاسی جماعتوں میں ایک تیسری قوت کی آمد لگ رہی ہے جو کچھ ہی عرصے میں عوام میں مقبول ہوئی۔ “تبدیلی” اور “انصاف” کے نعروں پر انحصار کرنے والی جماعت جس کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے۔ جنہوں نے 2013 میں پہلی بار جغرافیائی اور وسائل کے لحاظ سے اہمیت رکھنے والے صوبے میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنائی اور پانچ سال صوبے پر حکومت کی۔ پانچ سالوں میں صوبے کے اداروں میں موثر اصلاحات لے کر آئے اور اس کے بعد دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بھی دو تہائی اکثریت سے حکومت بنائی۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے صوبے کے عوام نے ایک سیاسی جماعت کو دو مرتبہ حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا تاہم تحریک انصاف کو دوبارہ منتخب کرکہ ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف نے پنجاب میں اور وفاق میں بھی کمزور حکومت بنائی اور عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف حکومت نے پاکستان کی خارجہ پالیسی، ملک میں معاشی استحکام، عوامی فلاح کے منصوبے شروع کیئے جس کا بہتر اور موثر نتیجہ نکلتا رہا۔ اس کے علاوہ ملک میں 60 سال بعد جنگی بنیادوں پر بڑے ڈیمز کی تعمیر شروع ہوئی جو مستقبل قریب میں درپیش آنے والی پانی اور بجلی کے مسائل کے حل کے لئے احسن قدم تھا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ریکارڈ زرمبادلہ بھیجا گیا جس سے ملک کو اپنے پاوں پر کھڑے ہونے میں کافی مدد ملی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اپنی گاڑیاں بنانے کا عمل شروع کیا، پاکستان کی ٹیکسٹائل سیکٹر میں ریکارڈ پیداوار رہی، ملک کے سیاحتی علاقوں میں ان چار سالوں میں ریکارڈ سیاح داخل ہوئے جس سے روزگار کی شرح میں اضافہ ہوا اور ایک سروے کے مطابق ان چار سالوں میں پاکستان میں روزگار کی شرح بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ رہی۔
کرونا وائرس نے دنیا کے ہر ملک کی معیشت کو نقصان پہنچایا اور پاکستان، جو پہلے سے ہی معاشی بدحالیوں کا شکار تھا کرونا کی وجہ سے مزید متاثر ہوا لیکن حکومت کی بہترین حکمت عملی نے پاکستان کی معیشت بچایا جس کا اعتراف امریکہ کے معاشی ماہرین بھی کرچکے ہیں۔ پاکستان میں ریکارڈ سرمایہ کاری آئی۔ تحریک انصاف کی چار سالہ حکومت میں درآمدات مٰیں پچھلی حکمت کی نسبت ۲۶ فیصد اضافہ ہوا۔ قرضوں کی مد میں ان چار سالوں میں دس ارب ڈالر واپس جمع کروائے گئےجو ایک بڑی کامیابی ہے۔ صحت کارڈ، احساس پروگرام اور دیگر عوامی فلاح کے لئے شروع کیئے گئے اقدامات سے واقعی عام عوام کو فائدہ پہنچا۔
مارچ 2022 میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت مخالف تحاریک زور پکڑنے لگی اور ایک مہینے میں سیاسی میدان میں سرکس میں تبدیل ہوا اور عدم اعتماد سے تحریک انصاف کی حکومت گرائی گئی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے امریکہ مداخلت کے مراسلے کا بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا جو عوام میں کافی مقبول ہوا جس کے مطابق امریکہ کے اہم سفارتی شخصیت ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر کو یہ دھمکی دی کے اگر عمران خان کی حکومت نہیں ہٹائی گئی تو پاکستان کو سخت نتائج برداشت کرنے ہونگے۔ یہ مراسلہ نیشنل سیکورٹی کاونسل کی میٹنگ میں بھی رکھا گیا جس کے بعد امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے نے ڈی مارش دے کر مراسلے میں موجود دھمکی کی مزمت کی اور اپنا احتجاج ریکار کروایا لیکن بعد میں این سی او سی کے جاری کردہ اعلامیئے میں کہا گیا کہ اس مراسلے میں “سازش” نام کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت کی جانب سے متضاد اور شکوک و شبہات پر مبنی بیانات نے عمران خان کے امریکی رجیم چینج کے بیانیئے کو اور فوقیت دی اور عمران خان نے اس کا بھرپور فائدہ عوام میں نکل کر اٹھایا۔ عمران خان نے دو ہفتوں میں دس سے زیادہ ریکارڈ جلسے کیئے اور ملک بھر میں عمران خان کی عوام میں مقبولیت نئی بلندیوں تک پہنچی۔ اس تناظر میں موجودہ حکومت کا درعمل یہ تھا کہ یہ مراسلہ ایک ڈرامہ ہے بلکہ عمران خان کی حکومت کو مہنگائی کی بنیاد پر گرایا گیا اور یہ حکومت یہ دعوہ بھی کرتی رہی کہ عمران خان کی ٹیم نالائق ہے اور ان کے پاس مفتاع اسماعیل جیسے قابل معاشی لوگ موجود ہیں جو ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں۔
لیکن ان کی حکومت کے دو مہینے ابھی نہیں گزرے اور آٹا ایک کلو 18 روپے مہنگا ہوا۔ چینی ایک کلو 15 روپے مہنگی، گھی کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ، پٹرول کی قیمت میں ایک ساتھ 30 روپے لیٹر کا اضافہ ہوا، حکومت تبدیلی کے 12 گھنٹے بعد ملک میں بجلی کی اور گیس کی بدترین غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ شروع ہوئی اور اس وقت بھی پورے ملک میں 24 گھنٹے کے دورانیئے میں 12 گھنٹے کی طویل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔
ملکی زخائر پہلے ایک ہفتے میں 21 ارب ڈالر سے گر کر 15 ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور پاکستان اس وقت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے لیکن شہباز شریف نے آتے ساتھ ہی سب سے پہلا کام عوامی مفاد میں اپنا اور اپنے ساتھ تمام کابینہ کے نام ای سی ایل سے نکال دیئے۔ اس کے بعد دوسرا کارنامہ انہوں نے عوامی مفاد میں ایف آئی اے کے ان افسران کو تبدیل کردیا جن کے پاس شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی منی لانڈرنگ کے کیسز تھے، اس کے بعد نیب ترامیم کی جارہی ہے جس کی زمہ داری آصف زرداری کو سونپی گئی ہے اور وہ اس بات کا فیصلہ کرینگیں کہ نیب کا چیئرمین کون ہوگا اور اس میں کون کون سے ترامیم کرنے چاہیے۔
اس ملک میں پچھلے دو مہینے سے حقیقی معنوں میں نہ معاشی میدان میں نا سیاسی میدان میں ایک بھی مثبت خبر آئی ہے لیکن اس ملک کے بڑے بڑے صحافی اور دانشور اس پر خاموش ہیں۔ مہنگائی پر پچھلی حکومت کے خلاف آگ برسانے والے صحافی حضرات اس وقت مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کی ماری عوام کی آواز الیکٹرانک میڈیا پر دبائی گئی ہے اور ایک دو چینلز کے علاوہ مہنگائی پر حکومت کو کوئی آڑے ہاتھوں نہیں لے رہا جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ میڈیا عوام کی مسائل پر کام کرنے کے لئے نہٰیں بلکہ اپنی میڈیا پالیسی کی بنیاد پر چلتی ہے۔
اللہ ہمارے صحافیوں اور دانشوروں کو اتنی ہمت دے کہ وہ عام عوام پر گزرنے والے مسائل کو اسی غصے اور دہشت کے ساتھ حکومت وقت تک پہنچائے جس طرح پچھلی حکومت میں پہنچایا جاتا تھا۔