’کیا میڈیا آزاد ہے؟‘ جسٹس فائز کے سوال پر اٹارنی جنرل جواب نہ دے سکے

سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوال کہ کیا میڈیا آزاد ہے؟ پر اٹارنی جنرل خالد جاوید جواب نہ دے سکے۔
سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ جس طرح یہ ملک چل رہا ہے اس پر حیران ہوں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ 2017ء میں مردم شماری ہوئی لیکن ابھی تک اس کا حتمی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ کیا 2017ء کے بعد سب سو گئے تھے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مردم شماری پر سندھ اور دیگر کے اعتراضات ہیں، مردم شماری پر اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کمیٹی بنادی ہے، سندھ میں 5 فیصد بلاکس پر دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی، مردم شماری کے نتائج پر ایم کیو ایم کے بھی اعتراضات تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کا نام نہ لیں، یہ آئینی معاملہ ہے، کیا سندھ کا اعتراض آبادی کم ہونے کا تھا؟ 2017ء سے 2021ء تک مردم شماری پر فیصلہ نہ ہو سکا، کیا پاکستان کو اس طرح سے چلایا جارہا ہے؟ یہ تو روزانہ کے معاملات ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آرڈیننس تو 2 سے 6 روز میں آ جاتا ہے، مردم شماری پر فیصلہ نہ ہو سکا، یہ ترجیحات کا ایشو نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین کون ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین وزیرِ اعظم ہوتا ہے۔
جسٹس قاض فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا وزیرِاعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیرِ اعظم نے اجلاس بلایا تھا لیکن کسی وجہ سے اجلاس نہیں ہو سکا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضہ ہیں، بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کر دیتے ہیں، پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کر کے جمہوریت کا قتل کر دیا، پنجاب حکومت کی بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کی کوئی وجہ تو ہو گی، مارشل لاء دور میں مقامی حکومتیں تحلیل ہوتی تھیں لیکن جمہوریت میں ایسا نہیں سنا۔
جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ کا نیا قانون بنا دیا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بتائیں کہ پنجاب کی مقامی حکومتیں کیوں تحلیل کی گئیں؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء مقامی حکومتوں کے قیام کے ایک سال بعد تحلیل کی اجازت دیتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ ایکٹ نہیں ڈکلیئریشن ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ گیم نہ کھیلیں، الیکشن کمشنر نے خود کہا ہے کہ پنجاب کی بلدیاتی حکومتیں غیر قانونی تحلیل ہوئیں، آپ کاحلف ہے کہ آپ قانون کے مطابق سچ بولیں گے، آپ ایک قانون دان کے طور پر بتائیں کہ پنجاب کی لوکل گورنمنٹ تحلیل کرنے کا فیصلہ آئینی تھا؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ یہ میرے لیے ایک مشکل سوال ہے۔