نیب کو تمام زیرِ التواء کیسز کی تفصیل جمع کرانے کا حکم

سپریم کورٹ آف پاکستان میں مسلم لیگ نون کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز شزیف کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو تمام زیرِ التواء کیسز کی تفصیل عدالت میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

دورانِ سماعت حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز نے عدالتِ عظمیٰ کو بتایا کہ حمزہ کو 11 جون 2019 کو گرفتار کیا گیا، ان پر ریفرنس دائر ہونے کے بعد 11 نومبر 2020ء کوچارج فریم کیا گیا، کیس کے 110 گواہان میں سے اب تک 3 کے بیان قلمبند کیئے گئے ہیں۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کا کیس 23 جعلی اکاؤنٹس کا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے مؤکل کو جواب الجواب کا موقع دیا جائے؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ کیس کے میرٹس پر بات کریں، آپ کے اکاؤنٹ میں پیسہ کہاں سے آیا اس معاملے کو چھوڑ دیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے استفسار کیا کہ نیب کو گواہان کے بیانات ریکارڈ کرنے کیلئے کتنا وقت درکار ہے؟

قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر عمران الحق نے عدالت کو بتایا کہ نیب 6 ماہ میں تمام گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر لے گا۔

جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ گواہوں کے بیانات میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟

نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ گواہان شریف خاندان کے ملازم ہیں، ان کو بلا کر بیان ریکارڈ کرنا مشکل عمل ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ مقدمے کے دیگر ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟

نیب پراسیکیوٹر نے بتایاکہ کیس کے دیگر ملزمان اشتہاری قرار دیئے جا چکے ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ نیب کا یہی تو کام ہے، ایک کو گرفتار کر کے باقیوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں، نیب نے اب تک ملزمان کی جائیدادیں ضبط کیوں نہیں کیں؟ آپ نے ملزم کو 11 جون 2019ء کو گرفتار کیا، اب تک ان کی جائیدادیں ضبط کیوں نہیں ہو سکیں؟

انہوں نے کہا کہ کسی دن نیب کی تمام فائلیں منگوا کر روزانہ کی کارروائی چیک کریں گے، نیب نے لوگوں کو بند رکھا ہوا ہے یہ زیادتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں