امن معاہدے کو دھچکا، افغان صدر کا طالبان قیدیوں کی رہائی، امریکی اتھارٹی ماننے سے انکار

اسلام آباد، تہران،واشنگٹن، کابل(نمائندہ جنگ،اے یف پی، خبرایجنسی، جنگ نیوز)افغان امن معاہدے کو دھچکا،افغان صدر کاطالبان قیدی رہا کرنے اور امریکی اتھارٹی ماننے سے انکار، رہائی پیشگی شرط نہیں، معاملے پر انٹرا افغان مذاکرات میں غور ہوسکتاہے، آئندہ 9دن میں مذاکراتی ٹیم تشکیل دیدیں گے۔
ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہےکہ افغان قیادت کا امتحان شروع ہوگیا، امن عمل کو نقصان پہنچانے والوں پر نظر رکھنا ہوگی، افغان صدر سمجھیں قیدیوں کی رہائی سے اعتماد بڑھے گا۔
دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نےامن معاہدے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے 19سالہ جنگ ختم کرنے کی کوشش کی،اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کا وقت آگیا ہے، امریکی افواج افغانستان میں ہزاروں دہشت گرد ہلاک کر تی رہیں ، اب وقت آ گیا طالبان یا افغانستان کے ارد گرد واقع ممالک یہ کام انجام دیں،انہوں نےطالبان کو خبردار بھی کیاکہ اگر امن معاہدے کو لیکرکچھ برا ہواتو اتنی بڑی فوج لیکرواپس آئینگے جو کسی نے دیکھی نہیں ہوگی۔
مزید برآں ایرانی وزارت خارجہ نے امریکا طالبان معاہدہ مسترد کرتے ہوئے کہاہےکہ امریکیوں کو افغانستان کے مستقبل سے متعلق فیصلے کا حق نہیں۔تفصیلات کےمطابق امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے تاریخی امن معاہدے کے چند گھنٹے بعد ہی افغان صدر اشرف غنی جنگ بندی کی اہم شرط سے پیچھے ہٹ گئے۔
افغان صدر اشرف غنی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا، طالبان کے قیدیوں کا معاملہ افغانستان کے عوام کا حق خود ارادیت ہے، طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ مذاکرات کی پیشگی شرط نہیں بن سکتا۔
البتہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ انٹر ا افغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے جس کے لیے اگلے 9دن میں مذاکراتی ٹیم تشکیل دے دی جائے گی،امریکا قیدیوں کی رہائی میں مدد فراہم کر رہا ہے جب کہ قیدیوں کی رہائی پر فیصلے کا اختیار افغان حکومت کا ہے۔
اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان میں 7روز کی جزوی جنگ بندی مکمل جنگ بندی کے مقصد کے حصول تک جاری رہے گی۔
دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے کہاہےکہ اب اپنے لوگوں کو واپس لانے کا وقت آگیاہے، مئی تک 5ہزار فوجی افغانستان چھوڑ دینگے،طالبان بہت لمبے عرصے سے امریکا کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور یہ کہ ان (صدر ٹرمپ) کو یقین تھا کہ یہ ڈیل ہو جائے گی کیونکہ ’ہر کوئی اس جنگ سے تھک چکا ہے،امریکی افواج افغانستان میں ’ہزاروں‘ کی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک کر رہی تھیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ’کوئی اور اس کام کو سرانجام دے۔
یہ کام اب طالبان کریں گے یا (افغانستان) کے ارد گرد واقع ممالک۔مجھے یقین ہے کہ طالبان کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جو اس بات کا اظہار کرے ہم سب وقت ضائع نہیں کر رہے۔
اگر اب بھی کچھ برا ہوتا ہے تو ہم اتنی قوت سے واپس (افغانستان) جائیں گے جو کسی نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔
دوسری جانب ایران نے افغان امن معاہدے کی مخالفت میں موقف اختیار کرتے ہوئےکہاکہ امریکیوں کو افغانستان کے مستقبل سے متعلق فیصلے کا حق نہیں ہے۔
اس ضمن میں وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ʼامریکا افغانستان کے مستقبل سے متعلق فیصلے اور امن معاہدے پر دستخط کا قانونی حق نہیں رکھتا، ایران نے افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کی بے دخلی کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ ان کی موجودگی غیرقانونی ہے اور جو خطے میں عدم استحکام اور جنگ کی وجہ بنی۔
ایران نے کہا کہ پائیدار امن کا حصول صرف انٹرا افغان مذاکرات ممکن ہوسکتا ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول طالبان اور پڑوسی ممالک کو شامل کیا جائے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ ʼہم یقین ہے کہ اقوام متحدہ افغانوں میں مذاکرات کی میزبانی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ʼعلاوہ ازیں اقوام متحدہ معاہدے پر علمدرآمد اور اس کی نگرانی بھی کرسکتا ہے ۔
ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ طویل جنگ کے بعد افغان عوام بھی امن چاہتے ہیں ،لوگوں نے نقل مکانی اور دشواریاں دیکھی ہیں ،معاہدے سے افغان دھڑوں میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی ، اب لیڈر شپ کی آزمائش ہے ،دیکھنا ہے کیا قیادتیں آگے بڑھنے کو تیار ہیں ،پائیدارامن کافیصلہ افغانوں نے خود کرنا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل دوحہ میں تاریخی لحاظ سے اہم دن تھا،امریکا اور طالبان کے درمیان یہ امن کی جانب پہلا اور ٹھوس قدم تھا،پاکستان سمیت 50 ممالک دوحہ میں دستخطوں کی تقریب میں موجود تھے ،طالبا ن اورامریکی حکام نے مسلسل کاوش کے بعد یہ سفر طے کیا،دونوں فریقین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کی نظر میں یہ اہم پیشرفت ہے ،پیشرفت سے افغان فریقین کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوگا،ناورے نے افغان فریقین کے مابین مذاکرات کی میزبانی کا اعلان کیا ہے ،اب افغان فریقین نے ہی مذاکرات اورامن کیلئے کردار ادا کرنا ہے۔
طویل جنگ کے بعد افغان عوام بھی امن چاہتے ہیں ،لوگوں نے نقل مکانی اور دشواریاں دیکھی ہیں ،معاہدے سے افغان دھڑوں میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی ،دیکھنا ہے کیا قیادتیں آگے بڑھنے کو تیار ہیں ،پائیدارامن کافیصلہ افغانوں نے خود کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طے ہواافغان کی سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں ہو گی،پائیدار امن کا فیصلہ افغانوں نے خود کرنا ہے، دیکھنا ہے افغان لیڈر شپ کسی روڈمیپ کیلئے کب آمادہ ہوتی ہے، یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے وہ کس طرح کا افغانستان چاہتے ہیں،قیدیوں کے معاملے پر آگے پیشرفت ہونی چاہئے،توقع کرتاہوں کہ اشرف غنی اس کی اہمیت سے غافل نہیں ہوں گے،امید ہے وہ ماحول کو سازگار رکھنے میں کردار ادا کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں جانب سے قیدیوں کی رہائی سے اعتماد بڑھے گا،کل کا معاہدہ ایک نشست پرنہیں مہینوں کی کوشش سے ممکن ہوا،نہیں چاہتے افغانستان کی داخلی سیاست معاملے میں رکاو ٹ ڈالے،لوگ امن چاہتے ہیں آرمائش قیادت پر آئے گی، دیکھنا ہے افغان قیادت اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہے یا افغانستان کے ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان پر نقطہ چینی کرنے والے پاکستان کے کردار کے معترف ہیں ،پاکستان کا کردار دنیا بھر میں سراہا گیا، مائیک پومپیو سے ملاقات میں 4 نکات پیش کئے معاملات خراب کرنے والوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، طالبان قیادت کو القاعدہ سے رابطے منقطع کرناہوں گے ،انٹراافغان مذاکرات میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے، نہیں چاہتے داخلی سیاست قیام امن کے عمل پر حاوی ہو جائے۔
انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کیلئے عالمی مدد چاہئے ہو گی، منفی کردار والوں کی نشاندہی ،بے نقاب کرنے کیلئے طریقہ کار درکار ہے ۔
انہوں نے کہاکہ لوگ تو امن چاہتے ہیں تاہم اب آزمائش قیادت کی آئے گی کہ وہ کس حد تک لچک کا مظاہرہ کرے گی۔ انہوںنے کہاکہ کیا قیادت افغان عوام کے مفادات کو دیکھے گی یا اپنے مفادات کو دیکھے گی۔