ہمیں مہنگائی کا احساس ضرور ہے گھبراہٹ نہیں، وفاقی وزیر اقتصادی امور

کراچی (سی ایم ڈی ڈیسک) جیو نیوز پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں میزبان شہزاد اقبال نے کہا کہ حکومت کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے،کل اس حوالے سے میٹنگ بھی ہوئی ہے جس میں تحریک انصاف کی معاشی ٹیم بھی موجود تھی اور آج اس حوالے وزیراعظم نے ٹوئٹ بھی کیاہے کہ مجھے تنخواہ دار طبقے سمیت عوام کو درپیش مشکلات کا ادراک ہے ۔

وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر نے کہا کہ ہمیں گھبراہٹ نہیں ہے لیکن احساس ضرور ہے ، جنوری میں آٹے کی قیمتیں اوپر گئیں لیکن اب وہ نیچے آرہی ہیں اسی طرح چینی کی قیمتیں بھی ہیں۔

ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ملکر آپریشن کو تیز کریں گے ہمارے جو یوٹیلیٹی اسٹورز میں اسٹاک ہیں ا ن کو کنٹرول ریٹ کے اندر پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا۔ پہلے وفاقی سطح پر ہوتا تھا اب یہ صوبائی سطح پر معاملہ چلا گیا ہے کوئی صوبہ اسٹاک خرید رہا ہے کوئی نہیں خرید رہا۔

انتظامی فیلیئر نہیں ہے لیکن ہر جگہ بہتری کی گنجائش ہوتی ہے اور اس طرح کے اقدامات کیے جارہے ہیں کہ آئندہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف اقدامات نہ کئے جائیں تو انتظامی ناکامی ہے ۔

مافیا ایک یا دو شخص نہیں ہیں یہ باقاعدہ پورے سیکٹر ہیں طبقے ہیں گندم ، آٹا، شوگر، ٹیکسٹائل سب میں ایک مافیا ہے، مقصد یہ ہے کہ مختلف مافیا ہیں جس سے حکومت اس وقت لڑ رہی ہے۔

نومبر میں جو مہنگائی کی بات کی تھی اس کے اگلے مہینے دسمبر میں مہنگائی میں کمی آئی تھی اس کے بعد کھانے پینے کی اشیاء میں مہنگائی دیکھی گئی جس کی کئی وجوہات ہیں جس میں موسمیاتی تبدیلی، فصل خراب ہونا وغیرہ تھا اور سپلائی شاکس کو مکمل طور پر حکومت انشور نہیں کرسکتی کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر موسم ٹھیک نہیں ہے کوئی فصل خراب ہوگئی ہے تو نیچرل ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو حکومت کے ہاتھ سے باہر ہوتی ہیں۔

انہوں نے بھی اس مرتبہ اپنا رول ادا کیا ہے جو سپلائی سائیڈ کا شاک آیا اسٹیٹ بینک کی اس وقت بھی جو تازہ ترین مانیٹری پالیسی کی رپورٹ آئی ہے وہ ان کی اس وقت بھی یہی پروجیکشن ہے کہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔

اس وقت جو روپے کی قدر گری ہے وہ تحریک انصاف کے کسی اقدام کی وجہ سے نہیں بلکہ ایسا ان خساروں کی وجہ سے اور فارن ایکسچینج ریزو کی پوزیشن کی وجہ سے ہوا ہے جو ماضی کی حکومت چھوڑ کر گئی وہ خود کہہ کر گئے ہیں جو پرانے وزیر خزانہ تھے کہ اس وقت معیشت کو بیل آؤٹ کی ضرور ت ہے۔

ایسا نہیں ہے آئی ایم ایف کے پاس پہلے چلے جاتے تو کرنسی اتنی نہیں گرتی بنیادی بات یہ ہے کہ کرنسی نے اپنے مارکیٹ ریٹ پر آنا تھا۔

نون لیگ کے دوسرے سال میں جو مہنگائی تھی وہ ساڑھے چار فیصد تھی اور آپ کی پہلے سال میں نو اشاریہ چھ فیصد وہ اب بڑھ کر بارہ فیصد ہوجائے گی تو دوسرے سال میں ان کی ساڑھے چار فیصد ہے آپ کی دوسرے سال میں بارہ فیصد ہوگی۔

اس حوالے سے کہا کہ بالکل آپ تیل اسی قیمت پر لے آئیں جس قیمت پر اس وقت تھا ہم چار فیصد پر لے جاتے ہیں کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ اگر ہمیں وہی ملے جو پیپلز پارٹی نے نون لیگ کو دیا تھا وہ ہمیں دے دیں ہم چار فیصد سے بھی نیچے لے آتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں