ملاکنڈ ڈویژن کی تقسیم، کیا عوامی محرومیوں کا مداوا ہے؟

تحریر؛فضل رحمان نونو۔
ملاکنڈ ڈویژن، صوبہ خیبر پختونخوا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ڈویژن ہے۔ تاریخی پس منظر میں ملاکنڈ ڈویژن کی اپنی ایک اہمیت رہی ہے، لیکن تاریخی پس منظر کے حامل اس خطے کو حکومتوں کی جانب سے وہ توجہ نہیں ملی جس کا یہ ڈویژن او ر اس کے عوام حق دار تھے۔ ماضی میں اس ڈویژن کو ہر دورِ حکومت میں پس ماندہ رکھا گیا۔ ان محرومیوں پرمستزاد 2006ء میں دہشت گردی کی وہ خونی لہر تھی جس میں ملاکنڈ ڈویژن کو سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ جانی اورمالی نقصانات کے علاوہ معاشی طورپر یہاں کے عوام زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے۔ اس طرح 2010ء کے ہولناک سیلاب سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ پے درپے سانحات، حادثات، واقعات اور حالات نے اس ڈویژن پر گہرے اثرات چھوڑ دیے ہیں۔ یہا ں کی معیشت ومعاشرت کو بہت بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ ایسے میں حکمرانِ وقت کے لیے ملاکنڈڈویژن کے عوام کی بحالی، تعمیر و ترقی کے عمل اور روزگار کے مواقع بڑھانے کی خاطر جن عملی اقدامات کی ضرورت تھی، اس سے چشم پوشی کی گئی۔ تحریکِ انصاف کی سابق صوبائی حکومت کو 2018ء کے عام انتخابات میں بھی بھاری مینڈیٹ ملا، تاہم ان کی جانب سے بھی ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کی محرومیاں دور کرنے کے لیے جن اقدامات کی توقعات تھیں،وہ بھی تاحال پوری نہ ہوسکیں، بلکہ اس کے برعکس ملاکنڈ ڈویژن کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جب اس کو تقسیم کرنے کا ممکنہ فیصلہ سامنے آیا، تواپراور لوئر دیر کے علاوہ سوات کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بعض سیاست دانوں نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ اب حیرانی کی بات یہ ہے کہ دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اگر ملاکنڈ ڈویژن کی تقسیم کی حمایت کرتے ہیں، تو یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے، لیکن سوات کے بعض سیاسی راہنماؤں کی اس بات کی حمایت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
قارئین، میرا ذاتی خیال ہے کہ جب حکومت کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی حل نہ ہو، تو وہ عوام کو ایسے ہی فیصلوں میں الجھاتے رہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملاکنڈ ڈویژن کو صوبے کا درجہ دیا جاتا، اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہمارے سیاست دان اور وزرا کوشش کرتے، لیکن یہاں تو ڈویژن کی تقسیم پر ایک طرح سے شادیانے بجائے جا رہے ہیں،جو کسی صورت دانش مندی نہیں۔ اس دفعہ مرکز اور صوبے دونوں سطح پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اور وفاق اور صوبے میں اس ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ممبرانِ اسمبلی اہم پوزیشنوں پر موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ کا تعلق بھی اسی ڈویژن سے ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کی تقسیم کے بجائے اس ڈویژن اور اس کے عوام کی فلاح وبہبود کے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
قارئین، فاٹا کے ضم ہونے کا جو فیصلہ ہو رہا تھا، تو ہم اس لحاظ سے خوش تھے کہ پختونخوا میں تفرقوں کا خاتمہ ہوجائے گا، اور فاٹا بھی صوبے کے زیر انتظام شامل ہوجائے گا۔ ہم نے اس کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا تھا کہ اس سے صوبے کو تقویت ملے گی، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ جب قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کا بل پاس ہو رہا تھا، تو اُس میں چوری چھپے ہمارے ملاکنڈ ڈویژن کی وہ آئینی حیثیت بھی ختم کی گئی جو ہم کو سالہا سال سے حاصل تھی۔ پانچ سال کے لیے ملاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس ایگزمشن کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اب حکومت کے اُس فیصلے پر کہیں پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ اور اس ڈویژن کے عوام سے یوٹیلیٹی بلز کی مختلف مدات میں ٹیکس وصولی کا ظالمانہ سلسلہ جاری ہے۔
قارئین، ہمار ا تو خیال تھا کہ موجود ہ حکومت سی پیک میں اس پس ماندہ ڈویژن کو ترجیح دے گی۔ اس کے لیے متبادل روڈ بشام سے چکدرہ، گلگت سے چترال اور چترال سے براستہ دیر چکدرہ روڈ تعمیرکرے گی، لیکن ان اہم منصوبوں کے لیے کسی قسم کے عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے۔
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر ہم موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی کی بات کریں،تو مہنگائی کا ایک طوفان پورے ملک میں برپا ہے۔ اس کی لپیٹ میں غریب، مڈل کلاس اور ہر طبقے کے لوگ آگئے ہیں، اور اس سے متاثر ہیں۔ آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔اس لیے لوگ فاقہ کشی اور خودکشی پر مجبورہیں۔ملک میں بے روزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔لوگ روزگار کے لیے در د ر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ہمار ا تو خیال تھا کہ ملاکنڈڈویژن کو موجود ہ حکومت ترجیح دے گی۔ انڈسٹریز، سمال انڈسٹریز زون قائم کرے گی اور یہاں پرمختلف ممالک سے سرمایہ کارو ں کو لائے گی۔یوں علاقے کو ترقی ملے گی۔
مینگورہ شہر ملاکنڈ ڈویژن کا ایک طرح سے ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس میں اس علاقے کے لوگ 25 فیصد جب کہ دیگر اضلاع کے 75 فیصد لوگ یہاں روزانہ کی بنیادپرآتے ہیں۔کیوں کہ کمشنر، ڈی آئی جی آفس اور دارالقضا یہاں پر ہیں۔ ریاستی دور کا سب سے بڑا ہسپتال بھی اسی شہر میں قائم ہے جس کی وجہ سے ڈویژن بھر کے لوگ اس شہر کا رُخ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ شہر صاف پانی سے محروم ہے۔ ہمارا تو خیال تھا کہ موجودہ حکومت عوام کو فائدہ دے گی، لیکن وہ تو اُن ایشوز کو اہمیت دے رہی ہے، جس سے عوام کا دور دور سے کوئی واسطہ نہیں۔
قارئین، جس طرح میں نے تحریر کے آغاز میں کہا ہے کہ ڈویژن کی تقسیم سے عوام میں اختلافات پیدا ہوں گے۔ کیوں کہ میری ناقص رائے میں نئے ڈویژن کے نام پرکچھ اضلاع جھگڑیں گے، تو کچھ اضلاع اس کا ہیڈکوارٹر اپنے ہاں قائم کرنے کے لیے سر تو ڑ کوششیں کریں گے۔ یوں ڈویژن کے عوام تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہوں گے۔ اس لیے میری ملاکنڈ ڈویژن کی تما م سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی،میڈیا اور دیگر متعلقہ طبقات سے پُرزور اپیل ہے کہ اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوششیں کریں اور حکومت کو بنیادی مسائل کے حل پر مجبور کریں۔ ملاکنڈ ڈویژن کی تقسیم سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔