وزیراعظم کاسابق حکمرانوں کے خلاف کرپشن کے مذید کیس کھولنے کا فیصلہ،

وزیراعظم قرضہ انکوائری کمیشن کی ابتدائی رپورٹ تیار، وزیراعظم کاسابق حکمرانوں کے خلاف کرپشن کے مذید کیس کھولنے کا فیصلہ،

باخبر ذرائع کے مطابق کرپشن کے نئے کیس سامنے آنے والے ہیں۔ دو ادوار حکومت میں منصوبوں میں 30 فیصد تک کمیشن کھایا گیا
رواں سال جون میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم کیے گئے 12؍ رکنی کمیشن کا کام یہ تھا کہ وہ 2008ء سے 2018ء تک لیے گئے قرضوں کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات کرے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کی جانب سے لیے جانے والے جائزے میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ مالی سال 2018-19ء یعنی پی ٹی آئی حکومت کے پہلے بجٹ کے حوالے سے بھی تحقیقات کرے گا۔

کمیشن کی قیادت پولیس سروس آف پاکستان کے گریڈ 22؍ کے اچھی ساکھ کے حامل ریٹائرڈ پولیس افسر اور نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کر رہے ہیں۔ یہ کمیشن 22؍ جون کو تشکیل دیا گیا تھا اور اسے 6؍ ماہ میں اپنی رپورٹ مکمل کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ کمیشن کے مینڈیٹ میں یہ شامل تھا کہ وہ قرضوں کی رقم کے استعمال کے حوالے سے بے ضابطگی یا غیر قانونی اقدام کی نشاندہی کرے اور معاملہ متعلقہ ایجنسی یا محکمے کو قانونی کارروائی کیلئے بھیج دے۔

کمیشن کے قیام کے نوٹیفکیشن میں اس کی توسیع کے حوالے سے بات بھی شامل تھی کہ اگر کمیشن چاہے تو معاونت کیلئے ملکی یا غیر ملکی سطح پر سرکاری یا نجی شعبے سے کسی بھی شخص کو بطور ممبر کمیشن، کنسلٹنٹ یا مشیر بھرتی کر سکتا ہے۔
کمیشن قائم کرنے والے وزیراعظم عمران خان یہ جاننے کیلئے متجسس تھے کہ 2017ء میں پاکستان پر واجب الادا قرضہ جات 7000؍ ارب روپے تھے تو یہ 2018ء میں (جب نون لیگ کی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی) بڑھ کر 30؍ ہزار ارب روپے کیسے ہوگئےکمیشن کی جانب سے جس بڑے کیس پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی جا رہی ہے وہ کراچی کا K-4 (کے فور) منصوبہ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ 13؍ سال پرانا کے فور کا یہ منصوبہ بمشکل 10، فیصد ہی مکمل تھا لیکن حالیہ بارشوں کی وجہ سے اب تک کا ہونے والا کام بہہ گیا۔
تاخیر کی وجہ سے کے فور پروجیکٹ کی تکمیل کے اخراجات 25 ارب روپے سے بڑھ کر 150 ارب روپے ہو چکے ہیں۔ پانی کا کے فور پروجیکٹ بلدیاتی انفرا اسٹرکچر کا منصوبہ تھا جسے صوبائی اور وفاقی حکومت مل کر تعمیر کر رہی تھیں تاکہ شہر کی روزانہ کی پانی کی فراہمی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
ابتدائی طور پر پروجیکٹ پر اخراجات کا تخمینہ 25 اعشاریہ 5؍ ارب روپے لگایا گیا تھا جس سے شہر کو تین مرحلوں میں 650؍ ملین (65؍ کروڑ) گیلن پانی ملتا۔

کُل ادائیگیاں گنی جائیں تو پاکستان نے جون 2009 سے مارچ 2019 تک قرضے کی اصل رقم (یعنی پرنسپل) میں سے 37 ارب 211 ملین ڈالر ادا کیے ہیں اور اسی دوران 13 ارب 452 ملین ڈالر سود کی شکل میں دیے۔

یہاں ہم ادائیگیاں ڈالروں میں اس لیے گنتے ہیں کیونکہ یہ ڈالروں کی شکل میں ہی کی جاتی ہیں اور روپے کی قدر میں اضافے یا کمی سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
مگر اگر اسی دورانیے میں ہم صرف حکومتی قرضے، آئی ایم ایف، اور زرِمبادلہ کے واجبات کے حوالے سے پرنسپل ادائیگی اور سود کو دیکھیں (یعنی پبلک سکیٹر کمپنیوں کے قرضے یا نجی کمپنیوں کے بیرونی قرضہ جات وغیر وغیرہ جیسے چیزیں نکال دیں) تو اصل رقم 31 ارب 263 ملین ہے اور سود 11 ارب 372 ملین ہے،
ذرائع بتا رہے ہیں کہ کمیشن نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی ہے، اورکمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں سابق حکمرانوں کے خلاف کرپشن، بدعنوانی اور 30 فیصد تک کمیشن کھانے کے بڑے کیس کھولے جارہے ہیں، کمیشن کی رپورٹ کے تحت مسلم لیگ ن آور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کو کو. کٹہرے میں لایا جائے گا.

اپنا تبصرہ بھیجیں